میں نے جمعیت سے کیا پایا؟
تحریر: محمد طیبؔ چوہان
(مرکزی سیکریٹری اطلاعات اسلامی جمعیتِ طلبہ پاکستان)
علم و ہنر آگاہی و دینِ وفا ملا تم سے،
تم شاد رہو، آباد رہو!
سوچتا ہوں کہ اگر جمعیت سے نہ ملا ہوتا تو زندگی کیسی ہوتی؟ کالج میں بات کرنے سے جھجکنے والا طالبِ علم آج نعرے بازی سے پیچھے نہیں رہتا۔ جمعیت نےتقریر سکھائی، جمعیت نے تحریر سکھائی، جمعیت نے بے باک ہوکر ظلم کے خلاف بولنا سکھایا۔سوچنے کی صلاحیت ، عقل و شعور اور فہم و فراست یہ سب جمعیت ہی کی تو مرہونِ منت ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کی پرورش کرکے اسے پروان چڑھاتی ہے اس کے مستقبل کی فکر کرتی ہے بالکل اس ہی طرح جمعیت کی مائیں (ناظمین) اپنے کارکنان کی آخرت کی فکر کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں تیار کرتے ہیں انہیں دین کے صحیح فہم سے آگاہ کرتے ہیں۔
میں اگر جمعیت کے احسانات گنوانا شروع کروں تو وقت قلیل، باتیں طویل کے مصداق شاید یہ تحریر ختم ہی نا ہوسکے لیکن پھر بھی چند ایک اپنے قارئین کی نظر کیے دیتے ہیں۔ میرے دوست احباب اکثر پوچھتے ہیں کہ تم طالبِ علم میڈیا کے ہو لیکن حساب کتاب میں مہارت کیسے رکھتے ہو؟
جواب ہوتا ہے کہ:یہ جمعیت کا احسان ہے کہ کبھی ہم مہتممِ بیت المال بھی رہے ہیں۔
کبھی پوچھتے ہیں کہ مینجمنٹ اسکلز کیسےآگئیں؟
انہیں کیسے بتایا جائے کہ ہم کبھی پورے پورے شہر کےتعلیمی فیسٹیول بھی کرواچکے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں کہ جوانی میں دینی و دنیاوی معلومات پر گرفت کیسے ہے؟
اب اسٹڈی سرکل بھی تو جمعیت کی ہی ایک خاصیت ہے۔
کبھی ذکر ہو تو سوال ہوتا ہے ملک بھر میں اتنےقابلِ اعتماد اور لائقِ بھروسہ تعلقات کیسے موجود ہیں؟
یہ بھی جمعیت کا احسان ہے کہ اس کی تربیت گاہیں نئے دوست اور تعلقات کو استوار کرتی ہیں جہاں ملک بھر سے افراد محبت اور خلوص سے شامل ِ تربیت ہوتے ہیں۔
کارکن سے رفیق، رفیق سے امیدوارِ رُکنیت پھر رُکنیت سے مختلف ذمہ داریوں کے دوران سیکھنے اور سیکھانے کے مراحل نے ذہن اور زبان کے تمام تالے کھل دئیے ۔ اس پورے دورانیے میں پتہ نہیں چلا کہ جذباتیت اور جوش سے بھرپور جوانی کب صبر اور شکر میں تبدیل ہوگئی۔ میں جمعیت کے ان بے پناہ احسانات کا ہمیشہ مقروض رہوں گا جو اس نے مجھ ناچیز پر کیے ۔ جمعیت سے کیا پایا کا جواب تو بس یہی بنتا ہے کہ دراصل جمعیت کو پالیا۔ اللہ کا بے پناہ شکر اور جمعیت کا بے پناہ کرم کے اس کے ذریعے سے باہمی تعلقات کو پایا۔ اور جیسا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا: "تنطیم، اتحاد، ایمان"، جمعیت میں تنطیم کو پایا، جمعیت میں اتحاد کو پایا، جمعیت نے ایمان کو پختہ کیا۔
اسلامی جمعیتِ طلبہ ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک مکمل ادارے کی مانند ہے جس کی بنیاد آج سے 77 سال قبل برِصغیر پاک وہند کے عظیم مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے رکھی۔ جہاں ہر سال ہزاروں طلبہ کی ذہنی، فکری اور نظریاتی صلاحیتوں کو ہمہ وقت پروان چڑ ھایا جاتا ہے ۔ زمانے کے اُتارچڑھاؤ کا سامنا کرنے کے لئے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔اس ادارے سے منسلک ہوکر مستقبل کے معماروں کی ناصرف شخصیت نکھرتی ہےبلکہ اس میں قائدانہ صلاحیتوں کا بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
آپ ایک نظر سوچئے کہ آج کے معاشرے میں جہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد ویڈیو گیمز، ٹک ٹاک اور میوزک کنسرٹس کے سحر میں مبتلاء ہے وہیں کچھ ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جو جنت کی طلب میں شہادت کی آرزو کیے بیٹھے ہیں، جنہیں دنیا کی رنگ و رنق سے کوئی غرض نہیں وہ تو بس رضائے الٰہی کے حصول میں اپنی رات دن صرف کرتے ہیں۔ جو تعلیم سے فراغت کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں ۔ سائنسدان عبدالقدیر، معیشت دان پروفیسر خوشید احمد، سیاستدان سراج الحق، حافظ نعیم الرحمٰن، مصنف نسیم حجازی، صحافی فیض اللہ خان، مجیب الرحمٰن شامی اور نشیدخواں نعمان شاہ جیسے کئی بے پناہ قابلِ قدر اور نامور چہرے اس ہی ادارے کے گوہرِ نایاب ہیں۔
خدا اس ادارے کو مزید تقویت اور اس کے کارکنا ن کو علم و حکمت کی بے پناہ صلاحیتوں سے روشناس کرے۔
میری تکمیل میں حصہ ہے تمہارا بھی بہت،
میں اگر تم سے نہ ملا ہوتا، تو ادھورا ہوتا!
شکریہ جمعیت!