اسلامی جمعیت طلبہ - نعمت خداوندی
تحریر: اسفند یار عزت
اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان، 23 دسمبر 1947 کو لگنے والا وہ ننها سا پودا جس نے فکر مودودی سے نشوونما پاتے ہوئے ایک ایسے تناور، سایہ دار اور پھلدار درخت کی شکل اختیار کر لی کہ اس کے قیام سے لے کر اج تک لاکھوں طلبہ اور نوجوان اس کے سائے میں اپنے مقصد تخلیق و حیات سے شناسائی پاتے ہیں اور معاشرے میں کچھ مثبت اور تعمیر کا جذبہ لے کر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
عموما اسلامی جمعیت طلبہ سمیت دیگر تنظیموں کے خالصتا سیاسی اور تنظیمی پہلوؤں پر بولا اور لکھا جاتا ہے مگر اج کی یہ تحریر اسلامی جمعیت طلبہ کے معاشرتی پہلو کے حوالے سے ہے ۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی قیام سے لے کر اج تک معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے اور جو کنٹریبیوشن کی ہے وہ فقید المثال ہے۔
دیگر طلبہ تنظیموں کی طرح ایک طلبہ تنظیم کی حیثیت سے اس کے اثرات وقتی طور پر محض طلبہ، تعلیم اور تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہونے چاہیے تھے مگر اس کی ورسٹیلٹی، ٹھوس اور بروقت منصوبہ بندی ،نظام جائزہ و احتساب اور فنانس سمیت تنظیمی آڈٹ نے اسے اس قدر مضبوط اور توانا بنا دیا ہے کہ یہ کئی پہلوؤں اور دائروں میں بڑی بڑی این جی اوز ،اداروں اور حتی کہ حکومت سے بھی بڑھ کر کنٹریبیوٹ کر رہی ہے۔
اس کے معاشرتی پہلو کو اگر اٹھایا جائے تو کئی ایسے نکات ملیں گے جس پر لمبی گفتگو ہو سکتی ہے مگر اس کے چند مخصوص نکات پر یہاں لکھنا مقصود ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ ایک دعوتی، فکری اور نظریاتی تحریک ہے۔ اس کے ٹھوس تنظیمی ڈھانچے کی بدولت اس کی شاخیں منظم طور پر پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے۔
یہ اسلامی جمعیت طلبہ کا ہی کمال ہے کہ یہ کسی مخصوص خطے اور جغرافیہ کسی خاص زبان بولنے والو یا کسی ایک تہذیب و تمدن رکھنے والوں کی تنظیم نہیں ہے بلکہ اس نے اپنی آغوش میں رنگ، نسل، زبان، برادری، کلاس اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر نوجوانوں کی پرورش کی ہے اور یہی اسلامی جمعیت طلبہ کا امتیاز بھی ہے اور اعزاز بھی کہ اس میں آپ کو ایک ہی چھت تلے ہر رنگ و نسل بلکہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے نوجوان نظر آئیں گے۔
با الفاظ دیگر اسلامی جمعیت طلبہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت واحدہ کا بھرم باقی رکھا ہوا ہے۔
پاکستانی معاشرہ جہاں سیاسی اور معاشرتی عدم استحکام اور امن کی ابتر صورتحال کا شکار ہے وہیں پر معاشی عدم استحکام روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ مڈل اور لور مڈل کلاس کے لیے تعلیم کی رسائی کو دن بدن مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے اور یہ نوجوان ابتر اور بے حال سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہیں پر اسلامی جمعیت طلبہ کی فری ٹیوشن اکیڈمیز، سیمینارز، ویبینارز ،تعلیمی سرگرمیاں اور سمر و ونٹر کیمپس ان نوجوانوں کو مفت اور معیاری تعلیمی سہولیات دے رہی ہے۔
اگرچہ یہ بات لکھنے اور پڑھنے میں ہلکی محسوس ہوتی ہے مگر وہ والد کہ جس کی روزانہ کی دیہاڑی 800 سے 1000 روپے ہے اس کے لیے جمعیت کا یہ اقدام اندھیری رات میں اس شمع کی مانند ہے کہ جو نہ صرف اس رات کو روشن کرنے بلکہ اس خاندان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے کام آتی ہے ۔
اسلامی جمیعت طلبہ کی Techno-Fest ہو یا Bizz-Tech, Tech-Spark ہو یا NextGen Expo, یہ نوجوانوں کو آئی ٹی اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے ہم اہنگ کرتے ہوئے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا عزم دے رہی ہے۔
ایسے کئی پوشیدہ پہلو ہیں کہ جس کا عوام کو علم ہونا بے حد ضروری ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے مملکت خداداد پاکستان کے نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت بھی کی ہے اور اس کی ترقی و استحکام میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے غریب اور لاچار والدین کا بوجھ بھی بانٹا ہے اور نوجوانوں کو نا امیدی کے دلدل میں بھی گرنے سے بچایا ہے۔
اسلامی جمیعت طلبہ نے پاکستان کو پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، خرم مراد، مشتاق احمد خان، سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن جیسے ہیرے بھی دیے ہیں اور ان جیسے ہزاروں نوجوانوں کی تعمیر کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ قوم پرستی، لسان پرستی اور صوبائیت کے خلاف برسر پیکار بھی رہی ہے اور نوجوانوں کو نظریہ اسلام اور پاکستان سے ہم اہنگ بھی کیا ہے۔
اسلامی جمیعت طلبہ نے باطل نظریات کا راستہ بھی روکا ہے اور اسلام کی حقیقی تشریح و توضیح کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے۔
Unbiased ہو کر سوچیے تو اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود پاکستان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اور اس نعمت کے لیے مجھے اور اپ کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
اسلامی جمعیت طلبہ زندہ باد،
پاکستان پائندہ باد